1062🌍) سرنگ والے سپاہی

سرنگ والے سپاہی

امام ابن قتیبہ نے اپنی مشہور کتاب "عیون الأخبار" (۱۲۶۶) میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ مسلم افواج کے سپہ سالار حضرت مسلمہؒ نے ایک قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ چالیس روز گزر گئے مگر قلعہ ناقابلِ تسخیر بنا رہا۔ غور و خوض کے بعد انھوں نے ایک سرنگ کے راستے سے شہر میں داخل ہونے اور صدر دروازے کھولنے کی پلاننگ کی۔ کام بڑے جوکھم کا تھا، اس لیے کسی کو مجبور کرنے کے بجاۓ انھوں نے رضاکارانہ طور پر کسی کو بھی اپنا نام پیش کر دینے کی ہدایت کی۔ مگر فوج میں سے کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔ شام ڈھلے ایک سپاہی آگے آیا، اس نے اپنا چہرہ جنگی خود میں چھپا رکھا تھا۔ وہ جان کی بازی لگا کر سرنگ کے راستے قلعے میں داخل ہوا اور مسلمانوں کے لیے صدر دروازہ کھول دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح مسلمانوں کو فتح سے نوازا۔

فتح کے بعد حضرت مسلمہ نے عام منادی کرائی کہ سرنگ میں داخل ہونے والا سپاہی سامنے آئے تاکہ علانیہ اس کے ساتھ اعزاز و اکرام کا معاملہ کیا جاسکے، مگر کوئی نہیں آیا۔ تین دن تک مسلسل اعلان کیا جاتا رہا، مگر نتیجہ وہی رہا۔ تھک کر انھوں نے اعلان کرایا کہ میں نے اپنے خادمِ خاص کو اجازت دے دی ہے کہ سرنگ میں داخل ہونے والا مجاہد جس وقت بھی چاہے مجھ سے ملنے آجائے۔ وہ براہِ راست میرے پاس آسکتا ہے۔ اسے روکا نہیں جائے گا اور میں قسم دے کر اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے ایک بار ضرور آکر ملے۔

اس منادی کے بعد رات کے آخری پہر میں ایک شخص آیا اور خادم سے حضرت مسلمہ کے پاس لے چلنے کی درخواست کی۔خدام نے پوچھا کہ کیا تم ہی سرنگ والے سپاہی ہو؟

 اس نے کہا: "میں وہ نہیں ہوں، لیکن میں تمھیں اس کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔" خادموں نے جا کر یہ بات حضرت مسلمہ کو بتائی تو وہ فی الفور ملنے کے لیے رضامند ہوگئے۔

ملاقات ہوئی تو اس آدمی نے کہا: "سرنگ والے سپاہی نے آپ سے ملنے کی تین شرطیں رکھی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا نام خلیفۃ المسلمین کے سامنے ذکر نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اسے کسی قسم کا انعام نہ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس سے پوچھا نہ جائے کہ وہ کون ہے، کس قبیلے سے ہے اور کہاں اس کا گھر ہے۔" حضرت مسلمہ نے تینوں شرطیں مان لیں تو اس آدمی نے کہا: "سرنگ والا سپاہی میں ہوں اور چلا گیا

راوی کہتا ہے کہ اس واقعے کے بعد سے حضرت مسلمہ کا معمول تھا کہ اکیلے نماز پڑھتے یا جماعت کی امامت کرتے، وہ نماز کے بعد بہ آوازِ بلند یہ دعا ضرور مانگتے تھے کہ "اے اللہ، میرا حشر، اس سرنگ والے سپاہی کے ساتھ فرما۔ اے اللہ اپنے گمنام بندے کو اپنی بہشت میں جگہ دے کر اس کا شایان شان اکرام فرما۔

جب بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں، عجیب کیفیت دل پر طاری ہو جاتی ہے۔ کیا آج ہماری صفوں میں کچھ سرنگ والے دکھائی دے رہے ہیں؟

 کیا ہماری تحریکوں اور جماعتوں میں کچھ سرنگ والے موجود ہیں؟ 

کیا ہمارے اداروں میں کچھ سرنگ والے موجود ہیں؟ 

دوسروں کو چھوڑیے، کیا ہم خود سرنگ والے ہیں یا اس جیسا بننے کا حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں؟


Comments