میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا
اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک ... اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک ... لیکن تاریخ کو چھیڑنے کی بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے رستہ میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جس میں شھید ہونیوالا حضرت عثمانؓ ہے۔
جی ہاں وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذو النورین کہتے ہیں
وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں
وہی عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں
وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں
وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں
وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں
وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں۔
خیر یہ باتیں تو آپ کو طلبا خطباء حضرات بتاتے رہتے ہیں
کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی ہے
حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کی جاتی ہے
حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے کئے جاتے ہیں۔ ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا ان کی دردناک شھادت کے قصے کو عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا۔
تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ کی مظلومیت کا ذکر کیا جائے۔ میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ عثمان وہ مظلوم تھے جس کا 40 دن پانی بند رکھا گیا۔ آج وہ عثمان پانی کو ترس رہا ہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتا تھا۔ حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے؟
حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو مشکیزہ لیکر علیؓ عثمان ؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آرہے ہیں۔
ہائے!! آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا۔ باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نا آیا۔ کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا تو مدینہ میں عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھے۔
اس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتا تھا۔
آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیا کرتے تھے۔
40 دن گزر گئے اس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ نبیؐ کی خدمت میں پیش کردیا کرتا تھا۔
آج اس عثمان کی داڑھی کھینچی جا رہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔
آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جا رہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا۔
آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ سے آپؐ کی بیعت کی تھی۔
ہائے عثمان! میں نقطہ دان نہیں، میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں اور دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہو جائیں۔ آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کر دیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا۔ آج آپؐ کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں۔
۔18 ذی الحج 35 ھجری ہے، جمعہ کا دن ہے، حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں، باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھنچتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتا ہے، ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتا ہے، ایک تلوار نکالتا ہے، حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتا ہے، وہی ہاتھ جس ہاتھ سے آپ کی بیعت کی تھی، قرآن سامنے پڑا تھا، خون قرآن پر گرتا ہے، تو قران بھی عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا۔ عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں۔ حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے۔
اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی
دیا خون صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی
مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کی قبر مبارک ہے۔
Comments
Post a Comment